Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
3 - 126
مسئلہ ۴: ۱۶ رجب ۱۳۰۷ھ از بدایوں مِردہی ٹولہ شیخ حامد حسن صاحب مختار
20_1.jpg
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ مکان تعدادی (ما سہ للعہ ۹گرہ) جانب شمال مینڈھو عظیم اللہ کا تھا۔ اس کےجانب جنوب رحمو کا مکان تعدادی (صہ للعہ ۵ گرہ) کا، اس سے جنوب کو نیاز احمد کا مکان تھا، رحمو کامکان مینڈھو ونیاز احمد نے خرید کیا، اورباہم تقسیم ہوگئی (لعہ للعہ ۷ گرہ) اراضی شمال مینڈھو کو ملی، اس نے اپنے مکان شمال میں شامل کرلی اب مینڈھووعظیم اللہ کا مکان (ما سہ لعہ) علاوہ آبچک کے ہوگیا، اور (مہ لعہ ۱۴گرہ) جنوبی نیاز احمدکوملی، اس نے اپنے مکان جنوبی میں ملا لی نیاز احمد اپنامکان جس میں اراضی مشتری یہ بھی شامل تھی بدست وزیرالدین بیع کردیا، تخمینا دس برس ہوئےکہ وزیر الدین مشتری نے ہر چہار سمت سے بطور خود اپنا پختہ مکان تعمیرکرلیا، فرمائےکہ جب تقسیم ہوکر تین مکان سے دو مکان ہوگئے، او ردرمیان میں دیوار موجود ہے اور کوئی شرکت دیوار میں بھی نہیں ، اور راستے دکانوں مکانوں کے جانب غرب شارح عام میں ہیں اور دونوں کی آبچکن جانب شرق اپنی اپنی جداگانہ زمین میں ۔ تو وزیر الدین مشتری مکان نیاز احمد کو نسبت (لعہ للعہ ۷ گرہ) اراضی مشتریہ مینڈھوں کی، حق خلیط کا حاصل ہے یا شفیع جار کا، وزیرالدین گمان کرتاہے کہ رحمو کا مکان میرے بائع نیاز احمد اور مینڈھو نے مشترکا خریدا تھا، لہذا مجھے حق خلیط حاصل ہے، یہ گمان اس کا شرعا صحیح یا باطل ہے؟ بینوا توجروا
الجواب : صورت مستفسرہ میں جبکہ نہ ایک مکان کی راہ دوسرے میں نہ دونوں کی کسی کوچہ سربستہ غیر نافذہ میں، نہ ایک کو دوسرے سے آبچک کا تعلق، تو بالاتفاق ان میں سے کسی کے مالک کو دوسرے سے علاقہ خلیط نہیں، بلکہ ہر ایک دوسرے کا مجاز محض ہے۔
درمختارمیں ہے :
للخلیط فی حق البیع ھوا لذی قاسم وبقیت لہ شرکۃ فی حق العقار کالشرب والطریق خاضین فلو عامین فلاشفعۃ بھما ۱؎ اھ ملخصا۔
   تقسیم شدہ مبیع کے حقوق میں شرکت مثلا پانی اور راستہ خاص ہوں یاعام۔ باقی ہوتو بھی خلیط کو اس شرکت کی وجہ سے شفعہ نہیں اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ درمختار  کتاب الشفعۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۱۱)
شرح نقایہ علامہ برجندی میں ہے :
جارملاصق بابہ فی سکۃ اخرٰی، اویکون بابہ وباب ذٰلک الجار معا الی الطریق العام ۲؎.
پڑوسی جس کادروازہ دوسری گلی میں ہو یا دونوں کا شار ع عام کی طر ف سے ملاہو۔ (ت)
(۲؎ شرح النقایہ للبرجندی    کتاب الشفعۃ   نولکشور لکھنؤ        ۳ /۴۸)
وزیر الدین کاخیال ہے میرابائع مینڈھو ایک زمین مشترک کےخلیط تھےجس کا ایک حصہ میرے بائع اور ایک مینڈھو کے مکان میں پڑا، لہذا میں اس کا خلیط ہوں، محض باطل ہے۔ کہ جب تقسیمیں ہوگئیں حدیں پڑگئیں، دیواریں کھنچ گئی، راہیں پڑگئیں، پھر خلط کہاں، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلاشفعۃ اخرجہ الامام البخاری ۳؎۔ وغیرہ عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
جب حد بندی ہوجائے اور راستہ تبدیل ہوجائے تو اب شریک کو شفعہ کاحق نہیں، اس کوبخاری اور دیگر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔ (ت)
(۳؎ صحیح البخاری    بؤاب الشرکۃ فی الارضین    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۳۹)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے :
اذا اقتسما الارض وخطا خطا فی وسطہا ثم اعلی کل منہما شیئا حتی بنیا حائطا، فکل منہما جارلصاحبہ فی الارض ۱؎۔
    جب دو شریکوں نے زمین تقسیم کرلی اور درمیان میں خط کھینچ لیا پھر دونوں نے کچھ خرچہ کرکے دیوار بنادی تو دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی قراراپائیں گے، (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب الشفعۃ الباب الثانی        نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۶۶)
غرض اگلے وقتوں کی شرکت پر اب دعوٰی حق خلط کرنا عجب دعوی ہے جس کا بطلان ہر ذی عقل پر ظاہر ۔
فضلا عن ذی فضل ۔ واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵: از بدایوں مِردی ٹولہ     شیخ حامد حسن وکیل ۱۶ رجب ۱۳۰۷ھ
20_2.jpg
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مینڈھو وعظیم اللہ کا مکان (ما صہ للعہ )گز کا ہے جس میں جانب شمال (ما مہ للعہ۹گرہ) ان کی موروثی اور (لعہ للعہ ۷ گرہ) جنوبی خاص مشتریہ مینڈھو ہے جو اسے بذریعہ شراء بعد تقسیم نیاز احمد ملی تھی، مینڈھو عظیم اللہ نے منجملہ مکان تعدادی (ماصہ لعہ) گز کے===== گز کے زمین جانب شمال میں باستثنائے آبچک شرقی وعلمہ بدین تعینین کہ شرقا غربا (عہ عہ) گزرا اور جنوبا شمالا ہے گز بدست حامد حسن بیع کی (ما عہ عہ) گز منجملہ مکان باقی رہی، اس بقیہ (ما عہ سہ) گز سے (لہ لعہ ۱۴ گرہ) گز اراضی شمالی تنہا مینڈھو نے بایں الفاظ بدست حامد حسن مذکور بیع کی کہ منجملہ (ما عہ سہ گز کے لعہ ۱۴ گرہ) گز میری اراضی بروئے تقسیم خانگی باہمی اراضی عظیم اللہ سے جانب شمال ہے۔ لہذا باستثنائے آبچک بیع کی) اس (لہ لعہ ۱۴ گرہ )گز منجملہ اس (لعہ للعہ) گز کے بھی شامل ہے جو خاص مشریہ مینڈھو تھی،اور یہ کل تعدادی (ما سہ لعہ) گز اس وقت تک بلا کسی حد فاصل کے ہے، نقشے میں جہاں جہاں نقطے دئے گئے ہیں وہاں کوئی دیوار یا حد نشان نہیں صرف تعیین سمت و مقدار گز کے اسے ایک ذہنی امتیاز ہے۔ یہم قطعہ زمین سے جسے آبچک کہا جاتاہے یہ بھی بلا کسی حد فصل کے مجموعہ مکان کا ایک غیر متمیز ٹکڑا ہے جسے بے پیمائش کے تعین نہیں کرسکتا، غرض کل مکان قطعہ واحدہ ہے۔ اس میں سے بقیہ (للعہ ۲ گرہ) گز جنوبی وکل آبچک و عملہ واقعہ مشریہ حامد حسن کو مینڈھوو عظیم اللہ نے بدست وزیر الادین ہمسایہ جنوبی بیع کیا،اس مکان او ر مکان وزید الدین مشتری کے بیچ میں ایک دیوار خاص مملوک وزیر الدین فاصل ہے۔ دونوں مکان کی راہیں جانب غرب شارع عام میں ہیں۔اور دونوں کی آبچکیں اپنی اپنی خاص زمین میں جانب مشرق ہیں، دونوں کاپانی اپنی خاص زمین میں ہوتاہوا شرق مکانات مختلفہ میں گزر جاتاہے۔ فرمائیے کہ ایسی صورت میں اراضی مبیعہ حامدحسن کو حق شفیع خلیط ہے یانہیں؟ اور شرعا اس استحقاق سے وہ کل زمین حامد حسن کو ملنا چاہئے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب:  صورت مستفسرہ میں وزیر الدین ا س مکان مینڈھو وغیرہ کا جارمحض ہے کہ نہ اسے کوئی شرکت نفس مبیع میں، نہ حق مبیع میں، اور تقریر ونقشہ سوال سے ظاہرکہ آبچک کی زمین بھیج باہم مشترک نہیں، بلکہ دونوں آبچکیں ایسے مختلف مکانوں کے جداگانہ ٹکرڑے ہیں جن میں ایک کا کوئی حق دوسرے سے متعلق نہیں، صرف اتصال ہی اتصال ہے توجوار سے زیادہ اسے کوئی استحقاق نہیں، نفی خلط کے لئے بیچ میں دیوارہی ہونا ضروری نہیں کہ اراضی آبچک میں جہاں دیوارنہیں شرکت وخلط مانیں، بلکہ مجرد وتعیین وامتیاز کافی ہے۔
عالمگیریہ میں ہے :
  اذا کان نہر علاہ لرجل واسفلہ لرجل فاشترٰی رجل نصیب صاحب اعلی النہر فطلب اسفل النہر الشفعۃ فالشفعۃ لہ بالجوار وکذٰلک لواشتری رجل نصیب اسفل النہر فالشفعۃ لصاحب الاعلی بالجوار، کذا فی المبسوط ۱؎ اھ ملخصا۔
اگرایسی نہر ہو کہ اس کا اوپر والا حصہ ایک شخص کو اور نیچے والادوسرے کا ہو تو کسی آدمی نے اوپر والے کا حصہ خرید لیا تو نیچے والے کو شفعہ کے مطالبہ کاحق ہے اس کا یہ شفعہ پڑوسی والا ہوگا، اوریونہی اگر کسی نے نیچے والے کاحصہ خریدا ہو تو اوپر والے کا شفعہ ہو تو وہ شفعہ پڑوسی والاہوگا۔ مبسوط میں یوں ہے اھ ملخصا (ت)
 (۱؎فتاوٰی ہندیۃ   کتاب الشفعۃ الباب الثانی   نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۷۱)
اور حامدحسین خلیط فی حق المبیع ہےکہ مکان واحد کا ایک حصہ مشاع خرید نےسےمشتری شریک فی العین ہو جاتاہے۔یوں ہی اس میں سے ایک حصہ معین محدود بتعین سمت و مقدار خریدنے سے خلیط فی الحق ہوجاتاہے ۔ جب تک حدیں فاصل ہوکہ انقطاع تعلق نہ ہوجائے زیر قول درمختار :
ان باع رجل عقارا الا ذرا مثلا فی جانب حد الشفیع فلا شفعۃ لعدم الاتصال وکذا لاشفعۃ لو ووھب ھذ القدر للمشتری و قبضہ ۱؎۔
   اگر کسی نے اپنی زمین فروخت کی مگر شفیع کی حد کی طرف ایک گز کو فروخت نہ کیا تو پڑوسی کو شفعہ کا حق نہ ہوگا کیونکہ اس کی حد سے اتصال نہ پایا گیا، اور یوں ہی اگر اس نے اتنا حصہ مشتری کو ہبہ کردیا اور قبضہ دے دیا۔ (ت)
 (۱؂درمختار کتاب الشفعۃ      باب مایبطلہا        مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۱۶)
Flag Counter